Role, Part of Urdu language in Tehreek-e-Pakistan | Urdu Notes | تحریک پاکستان میں اردو زبان کا حصہ

Role, Part of Urdu language in Tehreek-e-Pakistan | Urdu Notes | تحریک پاکستان میں اردو زبان کا حصہ

تحریک پاکستان میں اردو زبان کا حصہ

تحریک پاکستان بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی لازوال قربانیوں، بے مثال جذبے اور انمول جد وجہد کی داستان ہے۔ تاریخ اسلام اس بات کی گواہ ہے کہ مسلمان ہر عہد میں اپنی الگ شناخت کے ساتھ اقوام عالم میں ہے۔ عروج وزوال اور شکست در بخت کے کئی ادوار اور زمانے اس قوم نے دیکھے لیکن کبھی مایوسی یا قنوعیت مستقل طور پر مسلمانوں کو کلمتہ الحق کہنے سے نہ روک سکی۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ ہر عہد میں مسلمان باقی مذاہب اور نظریات کے مانے والوں سے تعداد میں کم ہونے کے باوجود اپنی منفرد شناخت کے ساتھ رہے۔ برصغیر میں بھی مسلمانوں کو عروج کے بعد زوال کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں پر مسلمانوں کوبیک وقت جن دو دشمن قوتوں کا سامنا تھا. ان میں ایک انگریز سامراج اور دوسراہند و سامراج تھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی بظاہر مسلمانوں اور ہندوؤں نے مل کر برطانوی راج کے خلاف لڑی تھی جس میں کامیابی نہ ہو سکی۔

 مسلمانوں کی وسعت قلبی اور امن پرستی اس بات کی دلیل ہے کہ عرصہ دراز تک مسلمان ہندوؤں کے ساتھ مل کر برطانوی نو آبادیاتی نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے کی سعی کرتے رہے۔ لیکن وقت نے آخر کار ظاہر کر دیا کہ ہندو مسلمانوں کے حمایتی نہیں بلکہ دو تو تھا اپنی اکھنڈ بھارت سوچ کے تحت مسلمانوں کو استعمال کرتے رہے اور در حقیقت اس نے مسلمانوں کے ساتھ آستین کے سانپ کا سلوک برتا۔ انگریز تو پہلے ہی مسلمانوں کی شناخت کو ختم کرنے کے درپے تھے۔ اس ضمن میں اس نے کوئی حربہ نہ چھوڑا تھا، انگریزوں کی مسلمان دشمنی صرف ہندوستان کے سیاسی حالات کی وجہ سے نہ تھی بلکہ رومن ایمپائر کی فلت سے صلیبی جنگوں تک اور قسطنطنیہ سے لے کر انداس تک پھیلی ہوئی تاریخ سے اثر و فروغ پاتی تھی۔ 1857ء کے بعد جب ہندوؤں کو واضح ہوا کہ وہ کبھی متحد ہندوستان پر اپناراج قائم نہیں کر سکتے تو انہوں نے مکار سوچ کو بروئے کار لاتے ہوئے انگریز سرکار کی قربت حاصل کرلی اور انگریزوں کو مسلمانوں کے خلاف مزید اکسانا شروع کر دیا جس کا جوازوہ یہ پیش کرتے تھے کہ 1857ء کی بغاوت مسلمانوں نے کی تھی جو کہ سراسر ان کا من گھڑت مجھوٹ تھا۔ ہندوؤں نے جلد ہی برطانوی راج کو مسلمانوں کے خلاف نبرد آزما ہونے کے لیے آمادہ کر لیا اور دوسری طرف ہر وہ حربہ استعمال کیا جس سے مسلمانوں کی شناخت ختم ہو۔ ہندوؤں نے یہ جنگ ہر محاز پر لڑی۔ انہوں نے اقتصادی و معاشی، تہذیبی و ثقافتی ، علمی وادبی افرض ہر میدان میں مسلمانوں کی بالواسطہ اور بلاواسطہ شناخت کو ختم کرنے کی کمر توڑ کوشش کی۔ اردو زبان جس کا ضمیر مسلمانوں کی آمد سے بر صغیر کی بولیوں اور مسلمانوں کی زبانوں عربی، ترکی اور فارسی کے امتزاج سے تیار ہوا تھا اور مسلمانوں کے عہد حکومت میں ہی اس زبان نے پرورش پائی اپنے ارتقائی سفر کو حلے کیا اور مسلمانوں کے دور سلطنت میں ہی برصغیر کی مقبول ترین زبان بن کر ابھری اور مسلمانوں کی شناخت بن گئی۔ کیونکہ اس زبان میں کثیر تعداد عربی اور فارسی الفاظ کی تھی اور اس کا رسم الفظ بھی عربی اور فارسی کی طرز پرتھا۔ اس وجہ سے کم فہم اور تنگ نظر ہندوؤں نے اس کو مسلمانوں کی زبان کہ کر اس کے مقابلے میں ہندی کولا کھڑا کیا۔ تاریخ پاکستان کے طالب علم جانتے ہیں کہ قیام پاکستان کی بظاہر وجوہات میں اردو ہندی تنازعہ بھی ایک اہم اور بنیادی وجہ تھی۔ زبان ایک ثقافتی عنصر ہے۔ کسی قوم کی زبان اس کے مافی الضمیر کے اظہار اور اس کی تہذیب و ثقافت کی علمبر دار ہوتی ہے۔ برصغیر میں رہنے والے مسلمانوں کی انیسویں اور بیسویں صدی میں زبان اردو ہی تھی۔ کیونکہ برطانوی سامراج کی آمد سے فارسی زبان کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ اب مسلمان اپنی آواز جس میں زبان میں بلند کر رہے تھے وہ اردو ہی تھی جو عوام اور خواص ہر دو میں مقبول تھی اردو زبان کے ساتھ لگاؤ اور انس شروع ہی سے مسلمانوں میں موجود تھا۔ 

حضرت امیر خسرو مسعود سعد سلمان سے لے کر ولی وکتی اور میر و غالب جیسے شاعر کی زبان سے وابستہ تھے۔ اسی طرح مسلمانوں کے عربی اور فارسی علم و ادب کا اب اردو زبان میں ترجمہ ہو رہا تھا۔ اس سرمائے اور اپنی شناخت کی حفاظت مسلمانوں کا ملی اور قومی فرائضہ تھا۔ دوسری طرف تنگ نظر ہند و سوچ اردو زبان کے خاتمے اور ہندی کو فوقیت دلانے سے دو قومی نظریے کے واضح ثبوت مہیا کر رہی تھی۔ ارووازبان کے خلاف اس محاذ آرائی کا آغاز بنارس سے ہوا پھر الہ آباد میں ایک مجلس قائم کی گئی۔ رفتہ رفتہ اس کیلئے کمیٹیاں مجلسیں اور سجائیں مختلف ناموں سے قائم ہو گئیں۔ اس میدان میں بالخصوص تعلیم یافتہ ہند و طبقہ تھا۔ اس ضمن میں محمد علی چراغ اپنی کتاب اکابرین تحریک پاکستان میں رقمطراز ہیں: سرائتونی میکڈائل نے متحد واصو بہ جات کا گورنر بنتے ہی صوبہ بہار سے اردو کو ختم کر کے اس کے بجائے ہندی کو سرکاری زبان قرار دے دیا تھا۔ اس عمل سے مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پاپی تھی۔ اردو چونکہ ہر عظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی ایک طرح کی شناخت کا ذریعہ تھی اس لئے مسلمانوں نے اس مسئلے سے سنجیدگی سے نمٹنا شروع کیا۔۔۔ حوالہ : ( محمد علی چراغ، اکا بر مین تحریک پاکستان لاہور : سنگ میل پبلی کیشنز ، س: 213) اس سازش کے خلاف مسلمانوں کی طرف سے جو پہلا قدم اٹھایا گیا دو اور دوڈ ٹینس ایسوسی ایشن کا قیام تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم ادارہ جس نے اس بے سر و سامانی میں اردو زبان کے تحفظ کا بیڑا اٹھا یاوا انجمن ترقی اردو " تھا جو جنوری 1902ء میں قائم ہوا۔ تحریک علی گڑھ سے وابستہ اہل قلم نے تحفظ زبان اردو میں اہم کردار ادا کیا۔ اکا بر مین تحریک پاکستان نے اردو زبان کی حفاظت دو قومی نظریے کی شناخت کے طور پر کی۔ یہ تنازعہ بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں مسلم لیگ کے قیام کے بعد تک رہا۔ لیکن آہستہ آہستہ ہندوؤں کو واضح ہو گیا کہ مسلمان بر صغیر کی منفر د شناخت رکھنے والی قوم سے ان کی تہذیب کو ثقافت کو کبھی پامال نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے ساتھ اردو زبان اسانی اور قومی حوالہ سے مسلمانوں کی دو شناخت بن چکی تھی جو قیام پاکستان تک دشمنوں کو چھتی رہی۔ اردو ہندی تنازعہ کا تذکرہ بابائے اردو مولوی عبد الحق نے ان الفاظ میں کرتے ہیں ؟ پر عظیم میں انگریزوں کی حکومت کے قیام کے بعد جو سب سے بڑا سانحہ ہو وہ یہ ہے کہ اس ملک میں انہوں محکوم قوم کی زبان سنسکرت اور ہندی ہی کو سب کچھ سمجھ لیا تھا۔۔۔ ہندواردو کو محض اس لیے رد کرتے تھے کہ یہ مسلمانوں کی زبان تھی اور اس کے علاوہ وار دوزبان ہند وساج کی نمائندگی کرنے کی بجائے اسلامی معاشرت کی نمائندگی کرتی تھی۔ لڈ ہندوؤں نے اس کے مقابلے میں بندی کو لا کھڑا کیا تھا۔ حالانکہ اس سے پیشتر بر عظیم کی زبان اردواردو کی کوئی مور د اور مفر اس قسم ہی ایک عام زبان تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عہد تک اسی زبان کی ترویج و ترقی اور فروغ کیلئے ہندوؤں، سکھوں ، عیسائیوں اور چینیوں نے بھی کام کیا۔ پھر مسلمانوں میں عام لوگوں سے بڑھ کر صوفیاء کرام نے بھی اس مد میں اہم خدمات انجام دیں۔ اردو کو قوت بخشی اور اسے بجاطور پر محفوظ کرنے کا فرائضہ ادا کیا۔ 1857ء کے بعد تو چونکہ اردو ہندی تنازعہ اردو اور مسلمانوں کے خلاف ایک بہت بڑا ھر بہ بن گیا تھا۔ اس لیے واضح طور پر ہندوؤں کے لیے ہندیزبان اور مسلمانوں کے لیے اردو زبان ان کی دوسیاسی امتیازی نشان اور قومی علامتیں بن گئی تھیں ۔ اردو ہندی تنازعہ اسانی سے بڑھ کر اب سیاسی نوعیت حاصل کر چکا تھا۔ جہاں پر مسلمان دو قومی نظریہ کی بات کرتے تھے وہاں اردو زبان کا تحفظ لازمی جزو بن چکا تھا۔ بالآخر بر صغیر میں مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم لیگ کا قیام 1906ء میں انہی لوگوں کے ہاتھوں عمل میں آیا جو وفاع اردوزبان کے لیے 4 دہائیوں سے لڑرہے تھے۔ جن میں نمائند و نام نواب و قار الملک، نواب محسن الملک، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان وغیرہ کے ہیں۔ آریہ سماج تحریک جو وفات ہندی اور مخالفت اردو میں پیش پیش تھی مسلم لیگ کے قیام کی بنیادی وجہ بنی۔ اس عہد کے بر صغیر میں اردو کے علاوہ بھی بہت سی علاقائی زبانیں اور بولیاں بولی جارہی تھیں۔

 جن میں پنجابی، سرائیکی، پشتو، سندھی، بلوپی، ہندی اور بھا شاہ تغیر و تھیں لیکن برصغیر کے مسلمانوں کی اجتماعی طور پر نماند وزبان اردو ہی تھی۔ اردو زبان کا تحریک پاکستان میں حصہ روز روشن کی طرح عیاں ہے اگر یہ کہا جائے کہ اردو زبان اور دو قومی نظریہ لازم و ملزوم تھے تو بجا ہو گا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر مجیب احمد اپنے ایک مقالہ میں رقم طراز ہیں : قیام پاکستان سے قبل بر صغیر کے طول و عرض کے ملے اور مختلف علاقائی زبانیں رکھنے کے با وجود الگ وطن کے لیے اردو کو بحیثیت قومی زبان تسلیم کرتے ہوئے مسلمانان ہند نے تحریک پاکستان میں بھر پور حصہ لیا اور قیام پاکستان کو ممکن بنایا۔ تحریک پاکستان کے دوران الگ زبان اردو دو قومی نظریے کا ایک بڑا اور بنیادی حوالہ تھی۔۔ مسلم لیگ کے متعد د اجلاسوں میں اردو زبان کی ترقی ، تحفظ اور اس کو قومی زبان تسلیم کرنے کے لیے قرار داد میں منظور ہوئیں۔ مسلم لیگ کی 4 دہائیوں پر مشتمل جد وجہد کا نتیجہ پاکستان ہے۔ تحریک پاکستان کے پورے سفر میں رابطہ کی زبان اردور ہی۔ عوام الناس تک مسلم لیگ کا پیغام زیادہ تر ار د وزبان میں ہی پہنچا تھا۔ قائد اعظم جو کہ اردوزبان سے زیادہ علاقہ نہ رکھتے تھے۔ آپ بھی اکثر اپنی تقاریر میں اردو زبان کو استعمال فرماتے تھے۔ ایک طرف حکومت برطانیہ تک پیغام رسانی کیلئے مسلم لیگ کی طرف سے اہم خبر میں انگریزی زبان میں شائع ہوتی لیکن عوام الناس کے لیے ان کا اردو ترجمہ بھی کیا جاتا تھا۔ جس کی واضح مثال قرار داد لاہور ( قرار داد پاکستان ) کی ہے جس کا متن انگریزی زبان میں تھا۔ لیکن عوام الناس کی سہولت کے لیے جلسہ کے دوران ہی مولانا ظفر علی خان نے قرار داد کار دو ترجمہ بھی پیش کیا۔ مصور پاکستان حضرت علامہ اقبال سے لے کر بانی پاکستان قائد اعظم تک تحریک پاکستان کا ہر فردار دو زبان سے محبت کرتا تھا اور اس زبان کی ترقی اور تحفظ کے لیے بر سر پیکار رہا۔ قرار داد پاکستان کا تاریٹی جہلا۔ جس نے پاکستان کی دھندلی تصویر کو بالکل عیاں کر دیا تھا اس جلسے کے سٹیج پر جو مسلمانوں کے لیے پیغام لکھا گیا تھا وہ بھی مصور پاکستان کا اردو زبان میں یہ شعر تھا۔ جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں ادھر ڈو سے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر لکھے ایک طرف تحریک پاکستان میں عوامی رابطہ کی زبان اردو تھی اور تقاریر ، جلسے اور ریلیوں میں نظریہ پاکستان کی تبلیغ بھی اسی زبان میں ہو رہی تھی جبکہ دوسری طرف ادبی محاز پر بھی ہمارے شاعر اور ادیب اردو زبان میں نظریہ پاکستان کا تحفظ کر رہے تھے۔

معروف دانشور ڈاکٹر معین الدین عقیل لکھتے ہیں :

بر عظیم کے مسلمانوں میں اجتماعی روح پیدا کرنے ان کے ملی اور قومی شعور کو بیدار کرنے اسے تقویت دینے اور سیاسی انتشارات کی مختلف تباہیوں اور بربادیوں کے بعد ان کے مردہ دلوں کو حرارت سے آشنا کرنے میں اردو زبان وادب نے جو اہم کردار ادا کیا، وہ بہت مؤثر اور نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ انقلاب زندہ باد سے لے کر رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان تک کے نعرے اردو زبان میں لگائے جاتے رہے اور اسلامیان ہند کی دھڑکنوں کا ترانہ مسلم ہے

 تو مسلم لیگ میں آ بھی اردوزبان میں گائے جاتے رہے۔ اردو زبان کے ان شاعروں اور اویوں کی فہرست طویل ہے جنہوں نے تحریک پاکستان میں اپنے قلم کے ذریعے کر دار ادا کیا۔ ان میں سے بہت ہی اہم شخصیات اور ان کی خدمات ہیں جو انہوں نے اردو زبان میں ہیں، کو بطور حوالہ دیا جاتاہے۔ تحریک پاکستان میں اردو زبان کے جس شاعر کا سب سے اہم اور نا قابل فراموش کردار رہاوہ مصور پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ہیں ان کی نظم و نثر نظریہ پاکستان کی عکاس اور محافظ ہے ہے۔ بالخصوص آپ نے اپنی اردو شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کر کے نوید صبح کا پیغام دیا۔ مسلمانوں پر آنے والے کٹھن حالات بھی واحد امید کی آواز حکیم الامت کی ہی تھی۔ اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے گھر پیدا آپ نے اپنے کلام کے ذریعے مسلمانوں میں عشق مصطفے (م) کے جذبہ کو پیدا کیا اور ان کو اپنی حقیقت سے آگاہ ہونے کا درس دیا۔ آپ کا کلام فارسی میں بھی ہے لیکن جو پذیرائی آپ کے اردو کلام کو تحریک پاکستان کے دور ان کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آپ کے اردو اشعار اور کلام کو ترنم کے ساتھ جلسوں میں پڑھا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ نظریہ پاکستان کے مقررین آپ کے اشعار کے سہارے لوگوں کے جذبات اور حوصلوں کو بڑھاتے تھے۔ جس طرح مسلمانوں کی نمائندو سیاسی جماعت کے بنیاد گزار اردوزبان سے وابستہ شاعر اور ادیب تھے اسی طرح مسلمانوں کے لیے علیہ وسلطنت کا پہلی بار مطالبہ بھی اردوزبان کے عظیم الشان شاعر علامہ محمد اقبال نے 1930ء میں کیا۔ علامہ اقبال کی فکر و ولولہ سے لبریز شاعری نے مسلمانان بر عظیم کے اجتماعی سیاسی شعور کو جلا بخشی۔ انہیں فکر و عمل کی نئی نئی راہیں کھائیں۔ علامہ اقبال کے انقلابی افکار نے مسلمانوں کو حریت پسندی اور آزادی کا سبق دیا اور انہیں زندگی کا شعور بخشا ہے۔ علامہ اقبال کے بعد جس شاعر کا نام اس ضمن میں اہم ہے وہرئیس المتغزلین مولانا حسرت موہانی ہیں؛ آپ تحریک پاکستان کے بڑے جو شیلے اور جذباتی جانثار تھے۔ آپ بیک وقت سیاسی راہنما ہونے کے ساتھ اردو زبان کے اعلی پائے کے شاعر بھی تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں برطانوی سامراج کے خلاف بڑی بے باکی سے لکھا جس کی وجہ سے آپ کو کئی بار جیل بھی جائے اس ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی ہر چند ہے دل شید احریت کامل کا منظور وہا لیکن سے قید محبت بھی شاعری کے ساتھ ساتھ آپ صحافتی میدان میں بھی وہ سر گرم عمل رہے۔ وہ اردوزبان میں اپنا پہ چہ اردوئے معلی نکالتے تھے۔

جس میں حریت، حب الوطنی اور انگریز حکومت سے آزادی کے متعلق مضامین چھپتے تھے۔ آپ نے اردو نظم و نثر کے ذریعے نظریہ پاکستان کا پر چار بیری جرات اور بے باکی سے کیا۔ آپ مسلم لیگ کی طرف سے اسلامی دنیا اور مشرقی و مغربی یورپ میں بطور سفیر بھی گئے۔ مولانا ظفر علی خان نے بھی اردو شاعری اور صحافت کے ذریعے تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ مسلم لیگ کے بنیاد گزاروں میں ہونے کےساتھ ساتھ قائد اعظم کے دست راست رہے۔ آپ پر جوش مقرر اور شعلہ بیان مقرر تھے۔ اس عہد کے سب سے زیادہ اشاعت والے اردو اخبار زمیندار کو آپ کی سرپرستی حاصل تھی۔ اردو زبان میں شائع ہونے والا یہ اختبار تحریک پاکستان کے دوران مسلم عوام کی امنگوں اور امیدوں کا حقیقی تر جمان تھا۔ اس اخبار پر بھی انگریز حکومت نے پابندیاں عائد کیں اور مولانا ظفر علی خان کو جیل کی سزا بھی بھگتنا پڑی۔ لیکن ”زمیندار“ ختبار حصول پاکستان تک مسلمانوں کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتارہا۔ ”زمیندار“ پر پابندی کے دوران آپ سیاسی مقاصد کے لیے "ستارہ صبیح کے نام سے بھی اخبار اردوزبان میں شائع کرتے رہے۔ اس کو بھی بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔ آپ شعر وادب سے بھی گہرا شغف رکھتے تھے ۔ آپ کو نظم و نثر کو بھی دونوں میں مہارت حاصل تھی۔ آپ کی اردو زبان میں لکھی گئی سیاسی اور اسلامی موضوعات شاعری نے مسلمانوں کے جذبی آزادی کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔

 مولانا کا مشہور زمانہ شعر آج بھی قوت ایمانی میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی ان کے علاوہ مولانا الطاف حسین حالی کا نام بھی اس ضمن میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ان کی نظم ”مدوجزر اسلام “جو مسدس حالی کے نام سے مشہور ہے نے قومی حمیت کو بیدار کرنے اور اقدار اسلامی کو اپنا کر دوبارہ زندہ قوم بلنے کا درس دیا۔ اس کے علاوہ آپ نے مشاہیر اسلام کی اردوزبان میں سوانح عمریاں لکھیں جو مسلمانوں کیلئے اپنے قائدین سے آگہی کا بہترین سبب بنیں ہیں۔ ہر چند ہے دل شید احریت کامل کا منظور و مالیکن سے قید محبت بھی شاعری کے ساتھ ساتھ آپ صحافتی میدان میں بھی وہ سر گرم عمل رہے۔

 وہ اردو زبان میں اپنا پہ چہ اردوئے معلی“ نکالتے تھے۔ جس  میںحریت ، حب الوطنی اور انگریز حکومت سے آزادی کے متعلق مضامین پھپتے تھے۔ آپ نے اردو نظم و نثر کے ذریعے نظریہ پاکستان کا پر چار بیری جرات اور بے باکی سے کیا۔ آپ مسلم لیگ کی طرف سے اسلامی دنیا اور مشرقی و مغربی یورپ میں بطور سفیر بھی گئے۔ مولانا ظفر علی خان نے بھی اردو شاعری اور صحافت کے ذریعے تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ مسلم لیگ کے بنیاد گزاروں میں ہونے کے ساتھ ساتھ قائداعظم کے دست راست رہے۔ آپ پر جوش مقرر اور شعلہ بیان مقرر تھے۔ اس عہد کے سب سے زیادہ اشاعت والے اردو اخبار ”زمیندار“ کو آپ کی سر پرستی حاصل تھی۔ اردوزبان میں شائع ہونے والا یہ اعتبار تحریک پاکستان کے دوران مسلم عوام کی امنگوں اور امیدوں کا حقیقی ترجمان تھا۔ اس اخبار پر بھی انگریز حکومت نے پابندیاں عائد کیں اور مولانا ظفر علی خان کو جیل کی سزا بھی بھگتنا پڑی۔ لیکن "زمیندار اعتبار حصول پاکستان تک مسلمانوں کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتارہا۔ ”زمیندار“ پر پابندی کے دوران آپ سیاسی مقاصد کے لیے "ستاره صبیح کے نام سے بھی اخبار اردو زبان میں شائع کرتے رہے ۔ اس کو بھی بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔ آپ شعر وادب سے بھی گہر اشغف رکھتے تھے۔ آپ کو نظم و نثر دونوں میں مہارت حاصل تھی۔ آپ کی اردوزبان میں لکھی گئی سیاسی اور اسلامی موضوعات شاعری نے مسلمانوں کے جذبی آزادی کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ مولانا کا مشہور زمانہ شعر آج بھی قوت ایمانی میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی ان کے علاوہ مولانا الطاف حسین حالی کا نام بھی اس ضمن میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ان کی نظم ” مدوجزر اسلام “ جو مسدس حالی کے نام سے مشہور ہے نے قومی حمیت کو بیدار کرنے اور اقدار اسلامی کو اپنا کر دوبارہ زندہ قوم ملنے کا درس دیا۔ اس کے علاوہ آپ نے مشاہیر اسلام کی اردوزبان میں سوانح عمریاں لکھیں جو مسلمانوں کیلئے اپنے قائدین سے آگہی کا بہترین سبب بنہیں ہیں۔ مولا امام احمد رضا خان بریلوی کی اردو شاعری نے بھی اسلامی فکر کے نئے دریچے کھولے، ایسے ایسے گلہائے عقیدت تمھارے کہ مدحت مصطفے (س) میں اہل ایمان کے قلوب گرما دیے۔ عربی زبان کی نعت گوئی میں جو مقام صاحب قصید و البر وہ امام بو میری کو نصیب ہوا ، فارسی زبان میں امام عبد الرحمان حبانی کے فن سخن کو عطا ہوا اور زبان اردو میں وہی مقام امام احمد رضاخان کے حصہ میں آیا۔ ان کا لکھا ہو اسلام پاک و ہند کے مسلمانوں کا مقبول ترین معلام بن گیا، جسے بلاشبہ اردوزبان کا قصیدہ بردہ “ کہا جاتا ہے۔

مصطفے جان رحمت پہ لاکھوں سلام

شمع بزم ہدایت پر لاکھوں سلام

شب اسری کے دولہا پہ دائم درود

نوشہ ویزم جنت پہ لاکھوں سلام

جس شہانی گھڑی پر کالیہ کا چاند

اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام

طوالت کے باعث تحریک پاکستان میں اہل اردو زبان کے کردار اور حصے کو فرو فرداز پر بحث لانا ممکن نہیں اس لیے اردوزبان وادب سے تعلق رکھنے والے ان مشاہیر کے نام درج کیے جاتے ہیں جنہوں نے اردو زبان کو ذریعہ اظہار بنا کر تحریک پاکستان میں اپنا کردار ادا کیا۔ اردو شاعری کی طرح اردو لٹر نے بھی تحریک پاکستان میں بے مثال حصہ ڈالا۔ اردوزبان کے جن ادیوں نے نظریہ پاکستان کے پر چار کے لیے نثری تحریر میں لکھیں ان میں عبد الحلیم شرر، نواب محسن الملک، مولانا محمد علی جوہر ، مولانا ظفر علی خان عبد المجید سالک مولوی عبد الحق اور احمد ندیم قاسمی وغیرہ کے نام اہم ہیں۔

ان لوگوں نے مضامین، ناول، افسانہ، ڈراما اور کالم کے ذریعے مسلمانوں کو دو قومی نظریے اور ان کے در بخشند ہاشمی سے آگہی بخشی۔ تحریک پاکستان کے دوران صحافتی میدان میں بھی اردو زبان کا حصہ نا قابل فراموش ہے۔ اردو زبان میں بے شمار اختبارات در مسائل اور جرائد شائع ہوتے رہے جو نظریہ پاکستان اور تحریک پاکستان کی تائید میں تھے۔ ان اخبارات اور رسائل میں تہذیب الاخلاق، آگرہ اختبار ، رو عیسائیت، شمس الاختبار ، ناصر الاخبار احسن الاختبار ، ولله از اتحاد، مہذب، پید، وکیل، اردوئے معلی زمیندار الہلال، تندرو، کامریڈ، ایمان، احسان، منشور ، تنویر ، نوائے وقت سر حد ملت الاسلام، جمہور اور تنظیم کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس ضمن میں ڈاکٹر معین الدین عقیل لکھتے ہیں : یہ اخبارات ان لا تعداد اخبارات میں سے ہیں جنہوں نے مسلمانوں کی تحریکیوں کو وسعت اور کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ان میں قومی اور ٹی شعور اجاگر کیا اور حصول پاکستان کی اہمیت اور ضرورت کی وضاحت کی۔۔۔ ملی اور کی اہمیت اور ضرورت کی وضاحت کی۔ حوالہ : (ایشاه : 205) ند کورہ بالا تمام اخبارات اور رسائل و جرائد اردو زبان میں شائع ہوتے تھے۔ تحریک پاکستان میں اردو شاعری اور افسانوی و غیر افسانوی نثر کا حصہ اظہر من الشمس ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم بظاہر اردوزبان کا استعمال بہت کم کرتے تھے وہ اپنی تقریر و تحریر کے لیے زیادہ انگریزی زبان کا استعمال کرتے تھے۔ لیکن ان کی بصیرت نے اس بات کا اندازہ لگا لیا تھا کہ بر صغیر کے مسلمانوں کے اتحاد کیلیے ان کی مشترکہ زبان اردو ہی ہے اور یہ تربان ہی ان کے دل کی آواز ہے کہ اسی زبان میں وہ اپنا مافی الضمیر بیان کرنا پسند کرتے ہیں۔ قائد اعظم کی صدارت میں مسلم لیگ کا پہلا اجلاس 1915ء میں ہوا تو اس میں قرار داد پیش کی گئی کہ اردوزبان کو ملکی زبان تسلیم کیا جائے تو آپ کی صدارت میں یہ قرار داد منظور ہوئی۔ اسی طرح مسلم لیگ کے پیو میں اجلاس میں جو لکھنو میں منعقد ہوا قائد اعظم کے زیر نگرانی ایک بار پھر اردو کی حمایت میں قرار داد منظور کی گئی تھی۔ آپ اردو زبان میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے اور اس کو سیکھنے کی کوشش بھی کرتے رہے۔ اب تک قائد اعظم انگریزی کے ذریعے اظہار خیال کرتے رہے تھے۔ حتی کہ اردو کی حمایت میں انہوں نے جو آواز بھی اٹھائی وہ انگریزی ہی میں تھی۔

اس کی نمایاں وجہ یہ تھی کہ انہیں انگریزی زبان تو بخوبی آتی تھی، اردو تحریر و تقریر کی کماحقہ صلاحیت نہ تھی۔ لیکن وہ عظیم لیڈر تھے۔ وہ جانتے تھے کہ عوام کی زبان اردو ہے۔۔۔ چنانچہ انہوں نے یہ زبان سیکھنے اور اس میں تقریر کرنے کا ملکہ پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی اور اس میں انہیں جو کامیابی ہوئی اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے چیسو میں اجلاس میں جو دسمبر 1938ء میں پٹنہ میں ہوا۔ انہوں نے اپنی انگریزی تقریر کے فورا بعد ار دوزبان میں رواں اور پر اثر تقریر کی اس اجلاس میں پہلی مرتبہ عوامی سطح پر قائد اعظم کی آواز اردوزبان میں گونج اٹھی۔۔

قائد اعظم اردو زبان کے ساتھ لگاوار رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کو برصغیر کے مسلمانوں کی زبان تسلیم کرتے تھے اس لیے آپ نے اپنے مشہور 14 نکات میں بھی مسلمانوں کی زبان (اردو) کے تحفظ کا مطالبہ کیا۔ انگریزی میں تقریر کرنے کا اصل مقصد انہوں نے اپنی ۳۰اکتوبر 1947ء کی ریڈیو پاکستان پر تقریر میں واضح فرمادیا۔

                   اب تک میں نے انگریزی میں تقریر کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا کی نگا میں پاکستان پر لگی ہوئی ہیں اور آزادی کے بعد مختلف اقوام عالم ہم میں نہیں لے رہی ہیں، لہذا میں نے انگریزی کاسہار الیانا کہ تمام دنیا کے لوگ ہماری بات سن سکیں۔ آپ کے اردوزبان سے لگاؤ کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ پاکستان میں مختلف علاقائی زبانوں کی موجودگی میں انہوں نے 3لاکھ سے زائد کے مجمع کے سامنے 21 مارچ 1948ء کو ڈھاکہ میں واضح اعلان فرمایا۔ میں آپ پر یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان صرف اردوہوگی ۔ اردو زبان کو قومی زبان قرار دیتے ہوئے آپ نے ڈھاکہ میں ہی 24 مارچ 1948ء کو فرمایا۔ ملک کے مختلف صوبوں کے مابین رابطہ پیدا کرنے کیلئے ایک اور صرف ایک ہی زبان قومی زبان قرار پائے گی اور وہ اردو ہو گی ۔ پاکستان کے لوگوں نے اپنے قائد کے فرمان کو تسلیم کیا تھا حالانکہ مشرقی پاکستان کے لوگ جہاں پر بنگالی زیادہ بولی جاتی تھی چند ایک شر پسند عناصر کے علاوہ سب نے محمد علی جناح کی اس بات کا خیر مقدم کیا۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کی قائد اعظم اور مادر ملت سے محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 1965ء کے صدارتی انتخابات میں فاطمہ جناح کو ڈھاکہ سے زیادہ برتری حاصل ہوئی تھی کہ ایوب خان کے مقابلہ میں مادر ملت کو 154 ووٹوں کی اکثریت حاصل ہوئی۔ بانی پاکستان کے ان فرمودات سے بھی اردو زبان کے تحریک پاکستان میں نمایاں حصہ کی تصدیق ہوتی ہے کہ جو زبان تحریک پاکستان میں ذرایعہ ابلاغ اور مسلمانوں کی نمائندہ رای بانی پاکستان نے اسی کو پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان کا درجہ دیا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی قومی زبان کے تحفظ اور ترقی کے لیے ممکنہ وسائل کو بروئے کار لائیں اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 251 پر عمل کرتے ہوئے اردو کو پاکستان میں بطور سرکاری زبان لاگو کریں۔ ابھی تہذیب کا نوحہ نہ لکھتا بھی کچھ لوگ اردو بولتے ہیں۔